اتوار، 6 ستمبر، 2020

کیا مولا مسیح سلام وعلینہ صرف اسرائیل کے نبی تھے؟

 کیا مولا مسیح سلام وعلینہ صرف اسرائیل کے نبی تھے؟



کچھ بھائی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مولا مسیح کی تعلیم صرف بنی اسرائیل کے لئے تھی نہ کہ تمام بنی نوع انسان کے لئے۔  اپنے دعوے کی تائید کے لئے ، ہمارے بھائی عہد نامہ کی مندرجہ ذیل آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔

 "اِن بارہ کو یِسُو ع نے بھیجا اور اُن کوحُکم دے کرکہا ۔ غَیر قَوموں کی طرف نہ جانااور سامرِیوں کے کِسی شہر میں داخِل نہ ہونا۔ بلکہ اِسر ائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔"(متی5:10-6)

"اُس نے جواب میں کہا کہ مَیں اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے سِوا اَور کِسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔"(متی15:24)

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مولا یسوع المسیح ابرہام ، اسحاق اور یعقوب کی نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے وہ اُس وعدے کی تکمیل کر رہے تھے جو خدا نے کئی صدیوں قبل ابرہام سے کیا تھا۔ خدا کی مرضی کے تابع ہونے کی وجہ سے ، ابرہام سے خدا نے دو وعدے کئے۔ پہلا: خدا نے اس کی نسل ، یعنی اسحاق ، یعقوب (اسرائیل) ، اور بنی اسرائیل (یعقوب کی اولاد) کو برکت دینے کا وعدہ کیا۔ دوم ، خدا نے وعدہ کیا کہ ابرہام کی نسل وسیلہ سے تمام اقوام برکت پائیں گی ، جس کا مطلب تمام انسانیت ہے۔ (اعمال 3: 25-26) اور( گلتیوں 3: 8،14)

ابرہام سے اسرائیل اورغیر قوموں (تمام غیر اسرائیلیوں) کو نجات دینے کا وعدہ کیا ۔ اس کی تصدیق کئی صدیوں بعد مولا مسیح کی ولادت کے بعد جب میرے مولا کو ہیکل میں لے جایا گیا تو ایک عقیدت مند بزرگ جس کا نام شمعون تھا ۔ اس نے مولا کو اپنی بانہوں میں لیا اور خدا سے دعا کی اور انہی الفاظ میں اعلان بھی کیا

"کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے۔ جو تُو نے سب اُمتّوں کے رُوبرُو تیّار کی ہے۔ تاکہ غَیر قَوموں کو رَوشنی دینے والا نُور اور تیری اُمّت اِسرا ئیل کا جلال بنے۔"(لوقا30:2-32)

مندرجہ بالا حوالہ جات سے ، ہم مولا یسوع المسیح کی منادی کو بھی اسی طرح دو پہلوؤں میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا: کیونکہ وہ بنی اسرائیل میں پیدا ہوا تھا ، اس لئے اس کا پہلا مشن اسرائیل کے سامنے اپنے آپ کو اور خدا کو ظاہر کرنا تھا۔ کیونکہ وہ خدا کے چُنے ہوئے لوگ تھے - یعنی ابرہام کی اولاد! بدقسمتی سے ، وقت گزرنے کے ساتھ ، بنی اسرائیل خدا سے لاتعلق ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں یہ ضروری تھا کہ مولا مسیح ان لوگوں کے درمیان نشانیوں اورعجائبات کے ساتھ ذاتی طور پر خدمت کریں تاکہ میرے مولا کی تصدیق ہوسکے کہ وہ مسیح ہے جسے خدا نے اپنے لوگوں کو چھڑانے کے لئے بھیجا تھا۔ اسی وجہ سے اپنی منادی کے دوران ، مولا نے اپنے شاگردوں کو صرف بنی اسرائیل کے پاس جانے کی ہدایت کی۔ کیونکہ انہیں پہلے پیغام سنانا تھا۔ کیونکہ خُدا کا وعدہ تھا کہ بنی اسرئیل کے وسیلہ سے لوگ  برکت پائیں گے۔ مولا مسیح کی موت اور قیامت کے بعد ، ان کے ایک شاگرد نے بنی اسرائیل کے ساتھ حسبِ ذیل خطاب کیا

"تُم نبِیوں کی اَولاد اور اُس عہد کے شرِیک ہو جو خُدا نے تُمہارے باپ دادا سے باندھا جب ابرہا م سے کہا کہ تیری اَولاد سے دُنیا کے سب گھرانے برکت پائیں گے۔ خُدا نے اپنے خادِم کو اُٹھا کر پہلے تُمہارے پاس بھیجا تاکہ تُم میں سے ہر ایک کو اُس کی بدیوں سے ہٹا کر برکت دے۔"(اعمال25:3-26)

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یسوع کے مشن کا دوسرا حصہ سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس مشن میں ساری انسانیت کے گناہوں کے لئے اپنی جان کا فدیہ دینا تھا (1 تیمتھیس 2: 4-6)۔ یہ وہ فضل تھا جو تمام اقوام کے لئے تھا۔ یہ خوشخبری ہے کہ مولا یسوع المسیح نے صلیب پر اپنا خون بہا کر انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ، اور جو بھی اس نجات کے فضل کو قبول کرتا ہے اس کے ساتھ ابدی زندگی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔

"اور اُن سے کہا یُوں لِکھا ہے کہ مسِیح دُکھ اُٹھائے گا اور تِیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اور یروشلِیم سے شرُوع کر کے سب قَوموں میں تَوبہ اور گُناہوں کی مُعافی کی مُنادی اُس کے نام سے کی جائے گی۔"(لوقا46:24-47)

صحیفوں میں یہ بات واضح ہے کہ نجات تمام یہودی اور غیر یہودی لوگوں کے لئے دستیاب ہے۔ یاد رکھئیے، مولا مسیح کی زمینی منادی کے دوران اس نے اپنے شاگردوں کو صرف بنی اسرائیل کے پاس جانے کی ہدایت کی۔ لیکن اس کے مشن کا دوسرا حصہ مکمل ہونے کے بعد (صلیب پرجان دینے کے بعد) ، نوٹ کریں کہ اس کے بعد خُداوند یسوع نے اپنے شاگردوں کو کیا ہدایت دی:

"لیکن جب رُوحُ القُدس تُم پر نازِل ہو گا تو تُم قُوّت پاؤ گے اور یروشلِیم اور تمام یہُودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمِین کی اِنتِہا تک میرے گواہ ہو گے۔"(اعمال8:1)

"پس تُم جا کر سب قَوموں کو شاگِرد بناؤ اور اُن کوباپ اور بیٹے اور رُوحُ القُدس کے نام سے بپتِسمہ دو۔"(متی19:28)

یسوع نے خود اپنے مشن کی تصدیق کی جب آپ نے یہ الفاظ اپنی زبانِ مُبارکہ سے ادا کیئے:

"دُنیا کا نُور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نُور پائے گا"(یوحنا12:8)

اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مولا یسوع المسیح نہ صرف بنی اسرائیل بلکہ تمام دُنیا کے خالق،مالک اور خُداوند خُدا ہیں۔خُداوند آپ کو برکت دے آمین!

مسیح میری پہچان ہے

مُبشر جیفی یوسف مسیح 


7 تبصرے:

  1. جس کا وعدہ اللہ نے ابراہیم سے اسحاق کےلئے کیا تھا وہی وعدہ اللہ نے نے ابراہیم سے اسماعیل کے بارے میں بھی کیا تھا تو اسماعیل کی وہ بڑی قوم کہاں گئی جس کا وعدہ تھا ذرا اس جانب توجہ دلائیں گے ؟؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جناب بائبل کے مطابق نبی صرف بنی اسرائل میں بھیجے گئے اور اضحاق سے اسمائل کی اولاد سے سردار کا کہا گیا نہ کہ نبی کا

      حذف کریں
  2. یعنی مسیح علیہ السلام خود نجات پا رہے ہیں کسی کو نجات نہیں دے رہےہیں اگر اس منترکا کچھ اور مطلب ہے تو عام الفاظ میں واضح کریں
    آخر......"کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے -
    کا کیا مطلب ہے؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. (اعمال8:1)
    کیا روح القدس اس وقت تک نازل نہیں ہوئے تھے؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. "لیکن جب رُوحُ القُدس تُم پر نازِل ہو گا تو تُم قُوّت پاؤ گے اور یروشلِیم اور تمام یہُودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمِین کی اِنتِہا تک میرے گواہ ہو گے۔"(اعمال8:1)
    کیا یہ وہی روح حق نہیں ہے جس کے بارے میں واضح کیا گیا ہے ہے اور اس سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کی گواہی دی ہی ہے اس لیے یہاں رُوحُ القُدس سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک ہے


    جواب دیںحذف کریں
  5. ایک سوال یہ ہے کہ کتنے یہودیوں نے مسیح علیہ السلام کو مان کر دیا؟؟ زیادہ سے زیادہ بارہ یہودیوں نے- آپ کے بعد آپ کے شاگردوں کو بھی اکثر یہودیوں نے جھٹلا ہی دیا اور آج تک یہودی مسیح علیہ السلام کو جھٹلا ہی رہے ہیں ان پر ایمان نہیں رکھتے ہیں-
    اوریہ ایک ضابطہ ہے جب تک نبی کا اپنی قوم سے وابستہ مشن تکمیل نہیں پاتا اس وقت تک اس کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے
    جیسا کہ یونس علیہ السلام کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنی قوم سے مایوس ہو کر نکل پڑے تو تو اللہ ان سے ناراض ہوگئے
    تو مسیح علیہ السلام کو یا آپ کے شاگردوں کوغیر قوموں میں دعوت کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  6. تو خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صرف اپنے دور کے بنی اسرائیل کے لیے بھیجے گئے تھے نہ ان کی دعوت عام تھی اور نہ آپ کے بعد کے یہودیوں کے لئے

    جواب دیںحذف کریں