بدھ، 27 اکتوبر، 2021

روحانی جنگ کیا ہے؟

 روحانی جنگ کیا ہے؟

کلامِ مُقدس کے مطابق شیطان خدا کے کام، اُس کی مخلوق اور اُس سے محبت کرنے والے لوگوں کا مخالف ہے۔ خُداوند یسوع کے مطابق شیطان جھوٹ کا باپ ہے اس میں کوئی سچائی نہیں۔ (یوحنا 44:8) لہذا ،لاکھوں لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شیطان کا کوئی وجود نہیں اور کلامِ خُدا کو نہیں مانتے اور خُداوند یسوع کے الفاظ پر شک کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ارد گرد ہونے والی روحانی جنگ کی بہت سی مثالوں میں سے ایک ہے کہ شیطان یہ احساس دلاتا ہے کہ اُس کا کوئی وجود نہیں مگر انسان کی زندگی کو برباد کردیتا ہے۔
اگر خُدا کا کلام یہ بات ہم پر ظاہر نہ کرتا تو ہم اس جنگ سے بے خبر رہتے اور بھاری نقصان اُٹھاتے۔ لہذا اس جنگ کو سمجھنے کے لیے ہمیں کلامِ مُقدس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کلامِ مُقدس کے مطابق یہ نظر نہ آنے والی جنگ کا میدان ہے جوکہ ہمارے جسمانی جنگ کے میدان سے مختلف ہے۔ ہماری جسمانی دنیا کئی طرح سے اس روحانی طاقت کے تحت ہے۔ دنیا میں زیادہ تر برائیاں اس نادیدہ جنگ کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اس تنازعہ میں ملوث شخصیات کی تعداد بہت زیادہ ہے ان میں شیطان کی دونوں قوتیں شامل ہیں جو بدرُوحوں اوراُن لوگوں پر مشتمل ہیں جو خُدا سے دُور ہیں اور اِن کا نشانہ خُدا کی قُربت میں رہنے والے لوگ بنتے ہیں تاکہ لوگوں کو خُدا کی قُربت سے دُور کرے۔
اس جنگ کا مقصد کیا ہے۔
اس جنگ کا مقصد انسان کو رُوحانی اور جسمانی طور پر برباد کرنا ہے ۔ کلامِ خُدا فرماتا ہے کہ "تُم ہوشیار اور بیدار رہو۔ تُمہارا مُخالِف اِبلِیس گرجنے والے شیرِ بَبر کی طرح ڈُھونڈتا پِھرتا ہے کہ کِس کو پھاڑ کھائے۔ تُم اِیمان میں مضبُوط ہو کر اور یہ جان کر اُس کا مُقابلہ کرو کہ تُمہارے بھائی جو دُنیا میں ہیں اَیسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔ "(1-پطرس 5: 8-9)
اور یہ جنگ کا میدان انسان کا ذہن ہے شیطان لوگوں کی عقلوں کو اندھا کر دیتا ہے تاکہ وہ نجات کے بغیر ہلاک ہو جائیں۔" اُن بے اِیمانوں کے واسطے جِن کی عقلوں کو اِس جہان کے خُدا نے اَندھا کر دِیا ہے تاکہ مسِیح جو خُدا کی صُورت ہے اُس کے جلال کی خُوشخبری کی رَوشنی اُن پر نہ پڑے۔"(2-کرنتھیوں3:4-4)
یہ تنازعہ ہمارے چاروں طرف پھیل رہا ہے کیونکہ شیطانی تاثیریں مختلف طریقوں سے لوگوں کی زندگیوں میں کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے گھروں میں لڑائیاں، پریشانیاں، دُکھ، تکلیف، بے روزگاری، محبت کا فقدان اور تفرقے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم مسیح کے پاس آتے ہیں تو ہم بچ جاتے ہیں لیکن خدا کا پروگرام ہماری نجات پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اب ہم خدا کی بادشاہی کا حصہ بن گئے ہیں اور شیطان کی بادشاہی کی مخالفت کرتے ہوئے کھوئے ہوؤں کو نجات کی راہ دکھانے کے لئے بُلائے گئے ہیں اور ہم اس جہاں کے خُدا کے مخالف بن گئے جس نے کئی لوگوں کو اندھا کیا ہوا ہے۔
ہمیں روحانی جنگ کو سمجھنے کی ضرورت کیوں ہے؟
کیا آپ نے کبھی ایسا کھیل کھیلا ہے جس کو کیسے کھیلتے ہیں آپ کو پتا ہی نہ ہو؟ تصور کریں کہ آپ کو قوانین کو سمجھائے بغیر فٹ بال کا کھیل کھیلنے کے لیے مدعو کیا جائے۔ یقین جانیں آپ اپنے آپ سے یہی سوال پوچھیں گے کہ میں اس گیند کے ساتھ کیا کروں؟ اس گیند کو کیسے مارتے ہیں؟ یہ لوگ مجھ سے گیند کو کیوں چھین رہے ہیں ؟ کچھ اسی طرح روحانی جنگ کے میدان میں ہوتا ہے جب کوئی زندگی مسیح کو قبول کرتی ہے اور رُوحانی طور پر دوبارہ پیدا (بپتسمہ ) ہوتی ہے تو وہ اس جنگ کے میدان میں آجاتی ہے جس میں ہمیں شیطان سے لڑنا ہوتا ہے اور اُس کے ساتھ لڑنے کے لئے ہمیں جنگ کے متعلق جاننا ضروری ہے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ جنگ کس کے ساتھ ہے؟ کب شروع ہوئی؟ روحانی جنگ کو سمجھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان تمام تنازعات کو سمجھ سکیں اور شکست کے بجائے فتح حاصل کریں ہمارا مقصد اُن علاقوں کو مسیح کے لئے جیتنا ہے جن علاقوں میں دشمن نے قبضہ کیا ہے اگر ہم سمجھ لیں کہ ہمارا دشمن کیسے کام کرتا ہے اور اُس کی حکمت عملی کیا ہے تو ہم اس کے خلاف اچھی طرح سے جنگ لڑ سکتے ہیں۔ شیطان کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مسیح سے دور کیا جائے تاکہ اُن کو غلامی اور شکست میں ڈالا جائےلیکن اگر ہم اُس کے طریقوں کو جان جائیں اور اسلحے سے لیس ہو جائیں تو شیطان کے مضبوط قلعوں کو ڈھا دیں گے جو ہماری مسلسل شکست کا سبب بنتے ہیں۔

روحانی جنگ کب شروع ہوئی؟
خداوند خُدا نے پرانے اور نئے عہد نامے میں نبیوں کے ذریعے اس جنگ کی اصل کو ظاہر کیا ہےکہ شیطان ایک فرشتہ تھا جس کا نام لوسیفر تھا۔ شیطان کی خوبصورتی اور فخر کی وجہ سے اُس نے خُدا سے بغاوت کی اور کئی فرشتے لوسیفر کے ساتھ گرائے گئے۔ شیطان کے زوال کی نوعیت حزقی ایل 28: 1-18، یسعیاہ 14: 1-19 میں بیان کی گئی ہے۔ اس روحانی مخلوق کے زوال کے ساتھ ہی یہ جنگ شروع ہوئی اور سزا کی جگہ کے طور پر خدا نے ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لیے جہنم تیار کی۔ (متی41:24) لیکن اُس کو جہنم میں بھیجنے سے پیشتر خُدا نے انسان کو خلق کیا۔ فرشتوں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ خدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر بنایا۔ فرشتوں کی طرح بنی نوع انسان میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ خدا کے احکامات کو مسترد یا ماننے کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔ خدا نے آدم اور حوا کو تخلیق کیا اور اُنہیں باغِ عدن میں رکھا۔ خُدا نے انسان کو اختیار دیا "خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پَھلو اور بڑھو اور زمِین کو معمُور و محکُوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمِین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو" (پیدایش28:1) شیطان نے باغِ عدن میں خدا کی فطرت اور احکامات پر سوال اٹھاتے ہوئے حوا کو نافرمانی کرنے کے لئے اُکسایا۔ خُدا کا حُکم نہ ماننے کے سبب سے انسان گُناہ میں گِر پڑا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے حق کو شیطان کے حوالے کر دیا اور شیطان کے غُلام بن گئے ۔ اسی وجہ سے شیطان مسیح کو پہاڑ پر آزما تا ہے اور اُسے دنیا کی بادشاہتیں پیش کرتا ہے کیونکہ پورے جہان کا اختیار خُدا نے انسان کو دیا تھا جو کہ اب ابلیس کے پاس ہے۔ (لوقا5:4-8) اگرچہ آدم اور حوا کی وجہ سے گُناہ اس دنیا میں آیا چونکہ خُدا انسان سے محبت کرتا ہے اس لئے خدا نے عورت کی نسل کے ذریعے نجات کا منصوبہ بنایا۔" تیری نسل اور عَورت کی نسل کے درمِیان عداوت ڈالُوں گا۔ وہ تیرے سر کو کُچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔" انسان کے زوال کے بعد خدا کا یہ اعلان کہ مسیح عورت کی نسل سے آئے گا اور ایک دن شیطان کو کُچلے گا خدا اور شیطان کے درمیان میدان جنگ بن گیا ۔ روحانی جنگ اب جسمانی دنیا میں داخل ہو چُکی ہے۔ قائن اور ہابل کے زمانے سے ہم دیکھتے ہیں کہ دو گروہ آدم اور حوا سے نکلے اول: جو خدا کی تلاش کرتے ہیں اور دوم: جو خدا کے احکام کو رد کرتے ہیں۔ اس وجہ سے خدا نے زمین سے ایسے لوگوں کو بلایا جو اس کی خدمت کریں یہ لوگ خداوند کی فوج ہیں جو روحانی جنگ میں شیطان کے کام کی مخالفت میں خدا کی نمائندگی کرتے ہیں۔
بنی نو انسان کی نجات اور شیطان کا زوال۔ یسوع کی پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد شیطان کا یہی ہدف رہا کہ انسان کو نجات پانے سے روکے۔ اُس مقام سے جب قائن نے ہابل کو قتل کیا گُناہ نےانسان کا پیچھا کیا اور تمام بنی نو انسان کو گناہ میں گِرا دیا مگر نوح کے دنوں میں خدا نے اپنے لوگوں یعنی نوح اور اُس کے خاندان کو گُناہ میں گِرتی ہوئی انسانیت سے الگ کیا۔ نوح کے کشتی سے باہر آنے کے بعد اس کی اولاد بڑھنے لگی ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان نے اُس جنگ کو جاری رکھا جو باغِ عدن میں شروع ہوئی تھی۔ ایک بار پھر خدا نے بنی نو انسان میں سے ابرہام کو بُلایا اور اُس سے وعدہ کیا کہ تیرے اور تیری نسل کے سبب سے لوگ برکت پائیں گے خدا نے ابرہام، اسحاق اور یعقوب کی اولاد کو اپنی قوم کے طور پر منتخب کیا۔ خروج کی کتاب میں خدا نے بنی اسرائیل کو تقریباً انیس مرتبہ "میری قوم" کہا اور اس طرح خُدا نے اپنے لوگوں اور مصر کے لوگوں میں فرق کیا۔ (خروج 7:6) بنی اسرائیل کے ذریعے خدا نےدنیا کو نجات دینے کا منصوبہ بنایا اور شیطان پھر اس نجات کے کام کو روکنے کی کوشش کرنے لگ گیا ۔ خروج 1 باب میں شیطان نے فرعون کے ذریعے تمام مرد بچوں کو قتل کروایا اوراس جدوجہد میں خُدا نے موسیٰ کو بنی اسرائیل کے لوگوں کو کنعان کی سرزمین کی طرف واپس لے جانے کے لیے چُنا راستے میں خدا نے دوبارہ اپنے لوگوں اور باقی اقوام کے درمیان امتیاز کا اعلان کیا۔(خروج5:19-6) اسرائیل کو زمین پر ایک منفرد قوم کے لیے بُلایا گیا ۔ اور نبیوں نے بھی مسیح کے آنے کا اعلان کیا کہ مسیح ابن داؤد کہلائے گا جو بیت لحم میں پیدا ہوگا (میکاہ 5: 2) وہ داؤد کے تخت پربیٹھ کر قوموں پر ابد تک حکومت کرے گا (یسعیا 9: 6-7) مسیح انسانوں کے گناہوں کی خاطر دکھ اٹھائے گا۔ (یسعیا 53) یسوع نے صلیب پر شیطان کو شکست دی ۔ جب خُداوند یسوع نے صلیب پر جان دی تواس نےاپنی جان کا فدیہ دے کر ہمیں گناہوں کی غلامی سے نجات دے دی۔ اس نے سانپ کے سر کو کُچل دیا (پیدائش 3:15) کلیسیاء مسیح کا بدن ہے جو دنیا میں خدا کی موجودگی کی نمائندگی کرتی ہے۔ یسوع نے شیطان پر اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو بدرُوحوں پر اختیار دیا۔ لہذا ہم دشمن پر اختیار رکھتے ہوئے جنگ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یسوع کا نام، طاقت اور اختیار ہے۔ (لوقا17:10-20) شیطان اپنی شکست کے باوجود دنیا میں خدا کی بادشاہی کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہے وہ جانتا ہے کہ اس کا وقت کم ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب تمام سلطنت اور اختیار نجات یافتہ کو دیا جائے گا اور یہ بات خُداوند یسوع المسیح کی پیدایش سے 500 سال قبل ہم دانی ایل نبی کی کتاب میں دیکھتے ہیں۔ (دانی27:7) مسیحیوں کے لیے شیطان کا ہدف یہ ہے کہ ہمیں مسیح سے دُور کرے ۔ سو ہمیں شیطان کے ساتھ مقابلہ کرکے مسیح کے ذریعہ فتح حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

نظر نہ آنے والا جنگی میدان: ہم روحانی دنیا کو اپنی جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے لیکن اس کے اثرات حقیقی ہیں کلام واضح طور پر اس نادیدہ جنگی میدان کے وجود کاانکشاف کرتا ہے (رومیوں20:1، عبرانیوں11: 27، کلسیوں16:1)۔ یہ دنیا ہمارے جسمانی حواس سے نہیں سمجھی جا سکتی اس روحانی دنیا کا تصور مادیت کے فلسفے کے برعکس ہے افسیوں 6 باب میں مُقدس پولُس ہمیں سیکھانا چاہتا ہے کہ لڑائی کی جڑ جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ ہمیں شیطان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہےاور یہ مقابلہ صرف خُدا کے تابع رہ کر کیا جا سکتا ہے۔ "پس خُدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مُقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا" (یعقوب7:4) ہمیں جیتنے کے لئے گُناہ سے بھاگنے، خُدا سے دعا کرنے اور مسیح پر ایمان رکھنے کی ضرورت ہے۔" جوانی کی خواہشوں سے بھاگ اور جو پاک دِل کے ساتھ خُداوند سے دُعا کرتے ہیں اُن کے ساتھ راست بازی اور ایمان اور محبت اور صُلح کا طالب ہو۔" (2-تیمتھیس22:2) ہمیں ہتھیار سے لیس ہونے کی ضرورت ہے ورنا ہم بُری طرح سے زخمی ہو جائیں گے۔ وہ ہتھیار یہ ہیں جن سے لیس ہونے کی ہمیں ضرورت ہے۔"پس سچّائی سے اپنی کمر کس کر اور راست بازی کا بکتر لگا کر۔ اور پاؤں میں صُلح کی خُوشخبری کی تیّاری کے جُوتے پہن کر۔ اور اُن سب کے ساتھ اِیمان کی سِپر لگا کر قائِم رہو۔ جِس سے تُم اُس شرِیر کے سب جلتے ہُوئے تِیروں کو بُجھا سکو۔ اور نجات کا خَود اور رُوح کی تلوار جو خُدا کا کلام ہے لے لو۔ اور ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا اور مِنّت کرتے رہو اور اِسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مُقدّسوں کے واسطے بِلاناغہ دُعا کِیا کرو" (افسیوں14:6-18) اس آیتِ مُبارکہ میں نو ہتھیار بتائیں گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں سے ہم نا صرف شیطان سے لڑ سکتے ہیں بلکہ اُس پر غالب بھی آ سکتے ہیں۔ خُداوند آپ سب کو برکت دے آمین
مسیح میری پہچان ہے مُبشِر جیفی یوسف مسیح